اردو کے مختلف شعرا کے خوبصورت اشعار آپ کے لیے اس صفحے پر دستیاب ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اردو کی طویل شعری روایت سے زیادہ سے زیادہ اچھے اور منتخب اشعار آپ کی خدمت میں پیش کیے جاسکیں۔ امید ہے اشعار کا یہ ذخیرہ آپ کے شعری ذوق کی آبیاری میں مددگار ہوگا۔
اشعار
رنجش ہی سہی دل ہی
دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
احمد فراز
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
جون ایلیا
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
خمار بارہ بنکوی
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جون ایلیا
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
احمد فراز
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
اکبر الہ آبادی
ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے
جوش ملیح آبادی
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
مرزا غالب
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
منیر نیازی
حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح
روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح
بہادر شاہ ظفر
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
فیض احمد فیض
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مرزا غالب
زباں خاموش مگر نظروں میں اجالا دیکھا
اس کا اظہار محبت بھی نرالا دیکھا
توقیر احمد
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے
فرحت احساس
سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق
کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی
جلیل مانک پوری
مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
احمد فراز
مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے
ایک تصویر مسکراتی ہوئی
وکاس شرما راز
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
احمد ندیم قاسمی
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
جون ایلیا
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
سلیم کوثر
جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
ظفر اقبال
دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں
جلیل عالیؔ
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
تشریح
اس شعر کو اکثر شارحین اور ناقدین نے ترقی پسند فکر کے آئینے میں دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ’’تم‘‘ انقلاب ، شبِ انتظار کشمکش اور استحصال اور تلاش جستجو کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے شعر کا مضمون یہ بنتا ہے کہ انقلاب کے کوشاں لوگوں نے استحصالی عناصر کے خلاف ہر چند کی بہت سعی کی مگر ہر دور اپنے ساتھ نئے استحصالی عناصر کو لاتا ہے۔ مگر چونکہ فیض نے اپنی شاعری میں اردو شاعری کی رویت سے بغاوت نہیں کی اور روایتی تلازمات کو ہی برتا ہے اس لئے اس شعر کو اگر ترقی پسند سوچ کے دائرے سے نکال کر بھی دیکھاجائے تو اس میں ایک عاشق اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ نہ تم آئے اور نہ انتظار کی رات گزری۔ اگرچہ دستور یہ ہے کہ ہر رات کی صبح ہوتی ہے مگر صبح کے بار بار آنے کے باوجود انتظار کی رات ختم نہیں ہوئی۔